Qismat Kay Faislay Niralay
قسمت کے فیصلے نرالے:
ناول پارٹ 1
عدن بیٹا کدھر ہو. اس کے ڈیڈ نے اسے آواز دے کر پکارا.
جی ڈیڈ آئی وہ کانوں سے ہیڈ-فون اتارتی ہاتھ میں موبائل پکڑے تیزی سے آئی.
جی وہ بولی.
عدن کے والد نے کہا کہ کیانی صاحب کو کیا جواب دوں بیٹا رشتہ اچھا ہے ایسے اچھے اچھے رشتوں کو بےبنیاد وجہ کے پیچھے ٹھکراتی رہو گی تو پتا ہی نہ چلے گا اور عمر بیت جاے گی اور پھر اچھے رشتے ملنے بند ہو جاہیں گے.
عدن نے بھرپور احتجاجی انداز سے چلا کر کہا کہ ڈیڈ جب میں نے اپنی ڈیمانڈ بتا دی ہے کہ لڑکا مجھ سے کم از کم دو چار چھ ماہ سے زیادہ بڑا نہ ہو تو پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ یہ صرف ڈیڑھ سال بڑا ہے. مجھے اپنے ہم عمر سے شادی کرنی ہے اپنے سے بڑے سے بلکل نہیں جو مجھ پر رعب جھاڑتا رہے. مجھے اپنا لاہف پارٹنر ہم عمر چاہیے جو میرا باس نہیں بلکہ دوست بن کر رہے.
باپ نے زچ ہوتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ بڑی عمر والا دوست نہ بن سکے اور چھوٹی عمر والا رعب نہ جھاڑے.
عدن فاہنل انداز میں فیصلہ کرتے ہوئے بولی ڈیڈ اب اگر آپ نے میری ڈیمانڈ کے خلاف مجھ سے اس سلسلے میں بات کی تو میں کچھ برا کر بیٹھوں گی.
وہ دھمکی دیتی ہوئی اٹھ کر غصے سے چل پڑی.
.عدن کا باپ لاچاری سے اسے جاتا دیکھتا رہا اور دل میں پچھتانے لگا کہ اس نے اس کی ماں کی وفات کے بعد جب وہ چودہ سال کی تھی اور اکلوتی ہونے کے سبب نہایت لاڈلی تھی. ماں کی اچانک موت سے وہ حواس باختہ رہ گئی. اس کے باپ نے اس کے غم کو بہلانے کے لئے اس کے بےجا لاڈ اٹھانے شروع کر دیے.
سب نے اسے سمجھانا بھی چاہا کہ بیٹی پرایا دھن ہوتی ہے اس طرح اس کی ہر ضد کو ماننے سے وہ خود سر اور ضدی ہو جائے گی اور اس کی زندگی میں مشکلات پیدا ہو جاہیں گی.
مگر شاہ صاحب نہ مانتے کہتے میری بیٹی چند سال ہی میرے پاس رہے گی پھر شادی ہو کر چلی جائے گی تو میں کیوں نا اس کے بھر پور لاڈ اٹھاوں.بیوی عاجز ہو کر کہتی شاہ صاحب آپ ایک دن پچھتائیں گے.
شاہ صاحب سوچتے آخر اسے یہ وہم کیوں ہے کہ بڑا لڑکا ہو گا تو رعب جھاڑے گا کہتی ہے کہ اس کی فرینڈ کا شوہر اس سے ایک سال ہی بڑا تھا تو اس پر رعب جھاڑتا تھا.
شاہ صاحب نے بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی نہ کی سب نے کہا مگر نہ مانے.
عدن کالج سے گھر واپس آئی تو ڈائننگ ٹیبل پر چاے کے دو کپ پڑے نظر آئے ایک کپ پر لپ اسٹک کا نشان تھا اس نے حیرت سے دیکھا اور برتن اٹھاتی ملازمہ سے پوچھا کہ کیا کوئی مہمان آئے تھے.
ملازمہ نے نفی میں گردن ہلا دی.
عدن نے حیرت سے پوچھا تو یہ چاے کس نے پی ہے.
ملازمہ نے کہا شاہ صاحب آئے تھے.
عدن نے پوچھا کیا کوئی عورت بھی ساتھ تھی.
ملازمہ نظریں چراتی ہوئی بولی جی.
عدن نے پوچھا کون تھی.؟
ملازمہ بولی جی پتا نہیں.
عدن کچھ سوچنے لگی کہ ڈیڈ کے ساتھ کون عورت ہو سکتی ہے. چلو ڈیڈ سے فون کر کے پوچھتی لیتی ہوں.
اس نے کال ملائ اور جھٹ سے بولی ڈیڈ آپ کے ساتھ آج گھر میں کون عورت آئی تھی.
اس کے والد نے کہا بیٹا میں زرا بزی ہوں گھر آ کر بات کرتا ہوں.
عدن بند فون کو حیرت سے دیکھنے لگی. ایسے تو پہلے کھبی نہیں ہوا. اس کے ڈیڈ تو میٹنگ چھوڑ کر بھی پہلے اس کی بات سنتے تھے اور اس سے ریکویسٹ کرتے بیٹا لوگ ویٹ کر رہے ہیں مجھے جانے دو گھر آ کر لمبی بات کروں گا اور اب کیا ہوا.
ڈیڈ کے گھر داخل ہوتے ہی اس نے ان سے پہلا سوال یہی کیا تو وہ ٹائ کی نٹ کھولتے ہوئے ٹالنے والے انداز میں بولے آج ہماری بیٹی جاسوس کیوں بنی ہوئی ہے.
عدن نے بے تابی سے پوچھا ڈیڈ میں پوچھ رہی ہوں کہ آخر وہ عورت کون تھی جسے آپ گھر لاے تھے.
شاہ صاحب بوٹ اتارتے ہوے بولے کوئی نہیں وہ آفس میں نئی سیکرٹری رکھی ہے اس کو کام سمجھانے گھر لایا تھا. اسے گھر کا بھی ایشو ہے سوچتا ہوں ایک کمرہ گھر کا اسے دے دوں اس کے باپ کو آپ کے لیے ڈرائیور رکھ لیا ہے. دو ہی بندے ہیں گھر کے...
نو نو نو نیور کھبی نہیں ملازموں کو آپ خود کہتے ہیں کہ سر پر نہیں چڑھانا چاہیے.
عدن کے باپ نے سیکرٹری کی تعریفیں شروع کر دیں کہ بہت ٹیلنٹیڈ اور ہارڈ ورکر ہے. اس کے آنے سے میں کافی ریلیکس ہو گیا ہوں اس لئے اسے گھر میں رکھنے سے میرا ہی مطلب بزنس کا بھی بہت فاہدہ ہے. اور ڈرائیور کی ضرورت تھی وہ ٹینشن بھی ختم ہوگئی.وہ عدن کو قاہل کرتے ہوئے بولے.
.عدن نے کہا ٹھیک ہے مگر گھر میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے اپنی پرائیویسی خراب کرنے کی. ویسے بھی سرونٹ کوارٹر میں کافی جگہ ہے. وہ لوگ وہاں رہیں گے میں گھر میں ان کی وجہ سے اپنی پرائیویسی خراب نہیں کر سکتی ہوں.
باپ نے احتجاجی لہجے میں کہا مگر بیٹا وہ میری سیکرٹری ہے. اس کا لیول سرونٹ کوارٹر نہیں ہے.
عدن مزاق اڑاتے ہوئے بولی واہ ڈیڈ اب ڈرائیور اور سیکرٹری بھی لیول کے ہو گئے.
باپ شرمندہ سی شکل بنا کر بولا مجھے کام کے سلسلے میں اسے ہر وقت بلانا پڑتا ہے مجھے بھی سہولت ہو جاتی.
عدن حیرت سے بولی آپ نے کام کو کب سے اپنے اوپر سوار کر لیا آپ تو کہتے تھے گھر میں آفس کی کوئی بات کوئی کال بھی آپ نہیں لیتے تھے موبائل آف کر دیتے تھے.
باپ نے نظریں چراتے ہوے کہاکہ اب کام بڑھ گیا ہے. اب گھر میں بھی کرنا پڑے گا.
عدن دلار سے باپ کے گلے میں باہیں ڈال کر بولی مائی گریٹ فادر میرا تعلیم کا آخری سمسٹر ہے پھر میں فری ہو جاوں گی اور آپ کے ساتھ بزنس میں ہاتھ بٹاوں گی.
شاہ صاحب نے آہستہ سے اس کی بازو کو پیچھے کرتے ہوئے کہا نہیں بیٹا میں تمھیں ان جھنجھٹوں سے دور رکھنا چاہتا ہوں. تمھاری شادی کی فکر ہے پڑھائی ختم ہوتے ہی تمھاری شادی کر دوں گا.بس تم آفس کے معاملات سے دور رہو. چھٹیاں انجوائے کرنا. اوکے. اتنے میں ان کا موبائل بجا اور وہ سندس کو اگنور کرتے کال سننے دور چلے گئے.
ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اسے کسی کال کے لئے اگنور کر رہے تھے. اس کے دل میں شک ابھرا مگر پھر سوچا نہیں کوئی وجہ نہیں اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ مجھے ضرور بتاتے میرے ڈیڈ ایسے نہیں کہ اس عمر میں کسی سیکرٹری کے چکر میں پڑ جائیں. وہ جوانی میں سب کے کہنے پر بھی شادی کی طرف مائل نہ ہوے تو اب اس عمر میں کیسے ممکن ہے. مگر کہتے ہیں مرد کھبی بوڑھا نہیں ہوتا. پھر وہ اپنے خیالات کو جھٹکتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی. وہ ملازمہ کو چاے کا کہنے گئی تو ڈیڈ ابھی تک فون پر بات کر رہے تھے اسے دیکھ کر خدا حافظ کہہ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور چائے کا پوچھا.
عدن نے کھوے کھوے انداز میں کہا ڈیڈ چاے بن رہی ہے.
اور کمرے میں چل پڑی.
عدن کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ڈیڈ نے کہا کہ سیکرٹری آج شفٹ ہو رہی ہے.
عدن نے کہا ڈیڈ وہ سرونٹ کوارٹر میں رہے گی.
شاہ صاحب نے کچھ کہنا چاہا مگرعدن نے حتمی انداز میں کہا کہ سوری.
اتنے میں سیکرٹری اور اس کا باپ جو عدن کی باتیں سن چکے تھے قریب آ کر اس نے عدن کو سلام کیا اس کا باپ عدن کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے بولا سلام میم جی.
عدن نے ہلکہ سا جواب دیا اور ملازم کو آواز دے کر بولی ان نیے ملازموں کا سامان سرونٹ کوارٹر میں لے جاو یہ ادھر رہیں گے.
ملازم سامان اٹھا کر لے گئے اور سیکرٹری کا منہ بن گیا. اور شکل بنا کر چل پڑی.
سیکرٹری جس کا نام رانی تھا اس کا باپ اسے کالج چھوڑنے جاتا. اس کی طرف آنکھیں پھاڑے دیکھتا رہتا. وہ غصے میں دل میں سوچتی ٹھڑکی بابا. اور اگنور کر دیتی.
گھر آتی تو اکثر رانی باپ کے ساتھ الاونج میں موجود ہوتی میز پر فاہلز پڑی ہوتی.
شاہ صاحب تو رانی کے آنے سے جیسے اسے بھول ہی چکے تھے. عدن کچھ کہنا چاہتی تو وہ دھیان نہ دیتے. عدن اب تعلیم سے فارغ ہو چکی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ اب بزنس کو سمجھے اور باپ کی ہیلپ کرے مگر وہ اس کو لفٹ ہی نہیں دے رہے تھے.
عدن باپ کے بدلتے رویے سے پریشان تھی. وہ تو اتنی مغرور تھی کہ کالج میں بھی کسی سے فالتو بات نہ کرتی تھی. رشتے دار پہلے ہی اس کی اکڑ کی وجہ سے اس سے دور رہتے تھے. اس کو اور اس کے باپ کو کسی رشتے دار کی پرواہ نہ تھی جو کوئی ان کو بیٹی کے حوالے سے سمجھانا چاہتا اسے ڈانٹ کر اس سے کنارا کر لیتے. اب تو رشتے داروں نے بھی ان کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا تھا. مگر انہیں احساس تک نہ ہوا تھا.
عدن نے دیکھا اس کا باپ رانی کے ساتھ گاڑی سے اترا.
عدن بالکونی سے یہ منظر دیکھ رہی تھی اس کا باپ اس کو فرنٹ ڈور کھول کر بڑے پیار بھرے انداز سے دیکھ کر مسکرا کر باہر آنے کا کہہ رہا تھا. وہ بھی مسکراتی ہوئی بنی سنوری اتر کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر آ رہی تھی.
عدن کا باپ بھی سوٹ بوٹ میں ملبوس تھا. دونوں مسکراتے ہنستے بولتے اندر داخل ہوئے.
عدن کو جیسے چکر آ گیا وہ گرنے لگی اس نے بمشکل اپنے آپ کو سنبھالا. آج اسے کسی قریبی دوست کی کمی محسوس ہوئی. کوئی بھی دنیا میں اس کا ہمراز اور غم گزار نہ تھا. اسے رانی پر بھی شدید غصہ آ رہا تھا جس نے اس کے باپ کو اپنا بنا لیا تھا. وہ تیزی سے نیچے آگئی اور دیکھا باپ کے بیڈروم کا دروازہ بند تھا اس نے گاڑی کی چابی اٹھائ. باپ نے محبت کے پیش نظر اسے ڈرائیونگ نہیں سکھائی تھی اور نہ سیکھنے دی تھی. رانی کا باپ ادھر آ گیا اس کے ہاتھ میں سامان تھا اور وہ ملازموں سے ان کے پورشن میں سامان رکھوا رہا تھا رانی کے روم کے ساتھ والا روم جو خالی تھا اس میں اکثر مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا تھا. سجا سجایا روم رانی کے باپ نے اس میں اپنا سامان رکھا اور عدن کی طرف متوجہ ہوا.
عدن حالات کی نزاکت کے پیش نظر اس کو منع بھی نہ کر سکی. اس کے ہاتھ میں چابی تھی.
رانی کے باپ نے پوچھا عدن جی آپ نے کہیں جانا ہے. اتنے میں عدن کا باپ اور رانی کمرے سے باہر آئے.
رانی نے عدن کی طرف مکارانہ اور فاتحانہ مسکراہٹ سے دیکھا اور قریب آ کر بولی.
ہیلو ڈاٹر کیسی ہو.
عدن نے اگنور کرتے ہوئے کوئی جواب نہ دیا نہ ہی باپ سے کچھ بولی.
باپ نے قدرے ہکلاتے ہوے اسے بتایا کہ بیٹا رانی آج سے تمھاری سوتیلی ماں ہے.
عدن نے باپ کی طرف دیکھا اور سپاٹ لہجے میں بولی بہت مبارک ہو ڈیڈ.
باپ اور رانی نے اسے حیران ہو کر دیکھا.
عدن نے رانی کے باپ سے طنزیہ انداز میں کہا سر کیا آپ میرے ساتھ چلیں گے.
وہ دوڑتا ہوا آیا اور خوش ہو کر بولا جی ضرور.
رانی نے پیار سے پوچھا بیٹا کہاں جا رہی ہو.آج ہماری شادی ہوئی ہے کیا.......
عدن نے جاتے جاتے مڑ کر دیکھا اور سپاٹ لہجے میں بولی آپ لوگوں نے کیا شادی کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کیا. آپ لوگوں نے مرضی سے شادی کی میں نے کچھ کہا. اب آپ لوگ بھی اچھی طرح سن لیں کہ میں بھی اپنی مرضی کی مالک ہوں میرا جو چاہے گا میں کروں گی کسی کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دوں گی آپ لوگ اپنی مرضی جیں اور مجھے اپنی مرضی جینے دیں. یہ کہہ کر وہ تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھ گئی.
عدن باپ سے چوری چھپے گاڑی چلانے کی کوشش کرتی اسے بہت شوق تھا. وہ گھر کے لان یا قریبی مارکیٹ تک چلی جاتی. ابھی زیادہ دور روڈ پر نہ گئی تھی. پھر جب سے رانی کا باپ ڈرائیور بنا اور اس کی طرف دلچسپی سے دیکھنے لگا پھر اس نے اسے عدن جی کہہ کر پکارا تو اسے بہت فنی لگا اور اس نے اسے نہ ٹوکا اور دل میں مسکراتے ہوئے بولی ٹھڑکی بابا.
وہ بھی اسے طنزیہ انداز میں سر کہتی تو رانی کے باپ کی چہرے پر خوشی پھیل جاتی وہ اسے دیکھتے ہی کھل جاتا. اس کے آگے پیچھے پھرتا. اسے وہ بہت معصوم سا لگتا اس کی بیٹی بھی اس کی سادگی سے عاجز رہتی.
اس وقت عدن کو رانی کے باپ کی کمپنی ہی غنیمت لگ رہی تھی اس نے باپ کو جلانے کے لیے فرنٹ ڈور کھول کر آگے بیٹھ گئی. باپ اسے ششدر دیکھتا رہ گیا.
اس نے دیکھا رانی کا باپ خوشی سے لبریز ہو رہا تھا.
عدن نے زرا آگے جا کر کہا کہ گاڑی روکو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے. آج سے تم مجھے ڈرائیونگ سکھاو گے تاکہ میں پرفیکٹ ہو جاوں.
وہ اسے پیار سے ڈرائیونگ سکھانے لگا. عدن جب تھک گئ تو ایک پارک کے پرسکون گوشے میں بیٹھ گئی.
رانی کا باپ اس کے لیے برگر اور جوس لے آیا اور اسے بڑے پیار سے مخاطب ہو کر بولا عدن جی میں جانتا ہوں آپ آج بہت پریشان ہیں. میں نے بیٹی کو بہت منع کرنے کی کوشش کی کہ باز آ جاو عدن جی کو دکھ ہو گا مگر وہ نہ مانی. میں نے اس کو ڈانٹا بھی مگر بچپن میں ماں کے مرنے کے بعد میں نے اسے سدھارنا چاہا مگر غریب تھا سارا دن باہر محنت مشقت کرنے چلا جاتا پیچھے یہ اکیلی ہوتی دس سال کی تھی آس پڑوس چلی جاتی وہ بھی غریب تھے اسے پڑھنے کا شوق تھا مگر تعلیم کے اخراجات بس سے باہر تھے اس نے جیسے تیسے چودہ جماعتیں پاس کی اور پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کر لی. ادھر کا ماحول اچھا نہ تھا مگر اس نے عیاشی اور خوشحالی کے لئے وہ ماحول اپنا لیا. میرا بھی اس بیٹی کے علاوہ کوئی نہیں. مجبوراً اس کا ساتھ دے رہا ہوں. اس نے ہاتھ جوڑ کر بیٹی کی طرف سے معافی مانگی.
عدن کو اس پر رحم آ گیا وہ اپنا غم بھول کر تھوڑی دیر کے لئے اس کی باتوں سے بہل گئی اور اس کے اصرار پر برگر کھانے لگی اور اسے جواب دیتے ہوئے بولی اکیلی آپ کی بیٹی قصور وار نہیں ہے میرے ڈیڈ بھی ہیں.
رانی کا باپ جو زرا اس کے فاصلے پر بیٹھا تھا عدن سے بولا آپ بہت نیک اور اچھے دل کی مالک ہیں.
عدن نے کوئی جواب نہ دیا.
گھر آ کر عدن کچھ بہل چکی تھی. اب وہ روز اس سے ڈرائیونگ سیکھنے لگی.
عدن کے باپ کو علم ہوا تو وہ پریشان ہو گیا. اس نے منع کیا تو عدن باپ سے بولی پلیز ڈیڈ آپ اپنی لاہف جیں اور میری لاہف میں انٹرفیر نہ کریں.
جاری ہے
پلیز اسے لاہک، کمنٹ اور فرینڈز کو شیئرکرنا نہ بھولیں شکریہ
Post a Comment