Qismat Kay Faislay Niralay
قسمت کے فیصلے نرالے:
ناول پارٹ 2
عدن اب پڑھائی سے بھی فارغ تھی اور ڈرائیونگ بھی سیکھ چکی تھی. وہ روزانہ گھر سے نکل جاتی بےمقصد گھومتی رہتی.
رانی کا باپ اس کے گرد چکر لگاتا رہتا اس کی دلجوئی کرنے کی کوشش کرتا.
عدن رانی کی کمپنی کو ہی غنیمت سمجھتی جو اس کا بہت خیال رکھتا تھا. اس سے بڑے پیار سے بات چیت کرنے کی کوشش کرتا.
عدن کو وہ بہت مخلص اور ہمدرد لگتا اس کی معصومیت پر اسے ترس آتا وہ جواب میں اس سے نرم رویہ رکھنے لگی کیونکہ باپ کی شادی کے پہلے دن جب وہ زہنی کرب میں مبتلا تھی تو اس وقت اسی نے اس کی دلجوئی کر کے اس کے غم کو ہلکہ کیا تھا عدن کو اس وقت کسی مخلص انسان کی کمپنی کی ضرورت تھی جو اس نے پوری کر دی وہ بار بار اپنی بیٹی کو کوستا اور عدن سے معافی مانگتا. وہ تو بیٹی سے اکھڑے لہجے میں بات کرتا.
عدن حیران ہوتی کہ اس کی بیٹی کس پر چلی گئی ہے جبکہ باپ اتنا سیدھا سادھا بھولا انسان اور رانی اس کے برعکس نہایت چالاک اور مکار تھی.
رانی کا باپ عدن سے اپنے قصے سناتا رہتا. عدن بھی دلچسپی سے سنتی اور اس کو لفٹ دے کر رانی کو جلانے کی کوشش کرتی. رانی کی شکل بن جاتی. عدن کے دل کو سکون ملتا جبکہ رانی کا باپ عدن کی توجہ پا کر کھل جاتا. عدن دل میں مسکراتی.
شاہ صاحب نے عدن سے کہا کہ کچھ اچھے رشتے آے ہیں ان میں سے ایک پسند کر لو.
عدن نے جب عمریں پوچھی تو وہ اس کی ڈیمانڈ کے بلکل برعکس تھیں اس نے صاف انکار کر دیا.
شاہ صاحب نے زچ ہو کر کہا کہ اتنا چھوٹا تمھاری ایج کا میں کہاں سے لاؤں. ضروری نہیں کہ تمھارا ہم عمر ہی تمھارا دوست بن کر رہے. مگر عدن قاہل نہ ہوئی.
آج پھر طیب کی مس کالز عدن کے موبائل پر موجود تھیں اس نے میسج کیا کہ اس کی ماما اور شاہ صاحب کی آپس میں صلح ہو چکی ہے اور ناراضگی دور ہو گئی ہے اور وہ جلد یہاں سے سب کچھ سمیٹ کر پاکستان سیٹل ہونے والے ہیں کیونکہ اب امریکہ سے ماما کا دل اچاٹ ہو چکا ہے اور اب وہ اپنے وطن میں بقیہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں.
طیب کی ماں عدن کے باپ کی کزن تھی. دونوں کا رشتہ بھی بڑوں نے طے کر دیا تھا مگر طیب کی ماں کا امریکہ کا رشتہ آنے پر اس کی شادی ادھر کر دی گئی. عدن کے باپ کو جب پتا چلا تو اس کو بہت غصہ آیا مگر اس کے والدین نے اسے قسمت کا کھیل سمجھ کر صبر کر لیا اور ناراض نہ ہوے اور عدن کے باپ کی عدن کی ماں سے شادی کر دی. عدن کی ماں نیک دل عورت تھی. اس کو بھی طیب کی ماں کے ساتھ رشتے کا علم تھا کیونکہ وہ بھی رشتے دار تھی اور طیب کی ماں سے اس کی دوستی بھی تھی. شادی کے بعد بھی اس نے شوہر کو کھبی طیب کی ماں کے حوالے سے نہ کھبی کوئی زکر کیا نہ ہی کھبی طعنہ دیا. وہ طیب کی ماں کو گھر بلاتی اور اسے عدن کی خالہ کہلواتی وہ جانتی تھی کہ طیب کی ماں کو عدن کے باپ سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی اب وہ اپنے شوہر سے خوش تھی. ان کا رشتہ بڑوں نے طے کیا تھا مگر عدن کے باپ کی اناء کو ٹھیس لگی تھی اس لیے طیب کی ماں کا بیوی سے میل ملاپ اندر سے پسند نہ کرتے تھے مگر بظاہر کچھ نہ بولتے. وہ بیوی کی نیک عادات سے خوش اور مطمئین تھے. اس لیے اس کی ناگہانی وفات کے بعد دوسری شادی کا نہ سوچتے. سب رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں نے زور بھی لگایا مگر نہ مانے.
اب وہ اکیلے رہتے ہوئے شاید احساس تنہائی کا شکار تھے کہ جب رانی انٹرویو دینے آئی تو اس نے اپنی مظلومیت کی داستان کچھ اس انداز سے بیان کی کہ وہ پگھل گئے پھر رانی کا ان کی زات کی تعریفیں اور یہ جتاتے رہنا کہ اسے بڑی عمر کے لوگ زیادہ پسند ہیں اور وہ شادی بھی کسی بڑی عمر والے سے کرے گی.
عدن کا باپ اس کی جادو بھری باتوں اور اس کے حسن سے مرعوب ہو گیا اور اس کی باتوں میں آگیا جب رانی نے بتایا کہ اس کا باپ اس کی کسی جوان سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر اسے عدن کے باپ سے عشق ہو گیا ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے.تو عدن کے باپ کو اس سے ہمدردی محسوس ہوئی اور اس نے رانی سے شادی کا فیصلہ کر لیا.
رانی سے شادی کر کے اب وہ خوش تھا کیونکہ وہ اس کو ہر طرح سے لبھانے کی کوشش کرتی. اس کی بیٹی کے لئے پیار کا اظہار کرتی کہتی وہ اب اس کی ماں ہے اور اسے اس کی شادی کی بہت فکر ہے.
شاہ صاحب اس کی میٹھی مکارانہ باتوں کے جال میں آ جاتے اور اسے اپنا اور اپنی بیٹی کا غمگسار سمجھتے.
رانی چاہتی تھی کہ عدن کی جلد سے جلد شادی ہو جائے پھر وہ مکمل طور پر عیاشی کر سکتی تھی عدن اس کے راستے کا کانٹا تھا. اس نے بہت پتا لگانے کی کوشش کی مگر عدن کا کردار شیشے کی طرح صاف تھا نہ تو اس کا کوئی بواے فرینڈ تھا نہ ہی اس کی کوئی سہیلی تھی. اس کی دنیا باپ سے شروع ہو کر باپ پر ہی ختم ہوتی تھی.
عدن تنہائی میں اکثر چھپ چھپ کر روتی اور ماں کو یاد کرتی. کیونکہ باپ اب اس سے دور ہو چکا تھا اس کے بند کمرے سے رانی کے قہقہوں کی آوازیں اسے رلاتی تھیں. ایسے وقت میں رانی کا باپ اس کے لیے کھبی فریش جوس خود بنا کر لے آتا کھبی چاے اور ساتھ چپس بنا لاتا بیٹی کی طرف نفرت سے دیکھتا. رانی باپ کو پروا نہ تھی اس نے سوچ رکھا تھا کہ بس کسی طرح سے رانی کی جلدی سے شادی ہو جائے اور وہ پھر باپ کو دیکھ لے گی. کیونکہ شاہ صاحب بھی رانی کے باپ کی بیٹی کے لئے فکر دیکھ کر خوش ہوتے اور تعریفیں کرتے. اس وجہ سے بھی رانی مجبور تھی اور باپ کو روک نہ سکتی تھی.
طیب اور عدن بچپن میں اکھٹے کھیلتے تھے. طیب عدن سے دو سال بڑا تھا. وہ اس کا بہت خیال رکھتا. وہ لوگ پاکستان جب بھی آتے عدن خوشی سے پھولے نہ سماتی. کیونکہ طیب اور اس کی ماں اس کے لئے ڈھیروں تحفے لے کر آتے. عدن کی ماں اور طیب کی ماں میں بہنوں جیسا پیار تھا. دونوں نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ وہ ان بچوں کی بڑے ہونے پر شادی کریں گی. طیب کے باپ اور عدن کے باپ میں بھی اچھی دوستی جا رہی تھی ان لوگوں کے آنے سے گھر میں بہار آ جاتی. خوب سیر سپاٹے کرتے. شمالی علاقہ جات کی سیر کو بھی جاتے. سب بہت انجوائے کرتے. دونوں خواتین مل کر کھبی کوکنگ کرتیں اور مزے سے سب کھاتے اور گپ شپ لگاتے. گھر کے لان میں سب ملکر کرکٹ کھیلتے. یا کھبی سب ملکر مووی دیکھتے. مووی دیکھنے کا انتخاب طیب کرتا جو اس نے خود دیکھی ہوتی اور اس کو فیملی کے ساتھ دیکھا جاسکتا تھا. کھبی انگلش مووی دیکھنے سینما چلے جاتے. مگر اب وہ سب عدن کے لیے خواب ہو گیا تھا جب طیب کے باپ کی وفات ہوئی تو عدن اپنی بزنس مصروفیت کی وجہ سے نہ جا سکا کیونکہ وہ دوبئی آے ہوے تھے اور عدن کے باپ کے لیے دوبئی جانا کوئی مشکل نہ تھا کیونکہ وہ اکثر بیٹی کے ساتھ بزنس ٹور پر پوری دنیا میں جاتا تھا اور بیٹی کو ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا. اب جو وہ نہ گیا تو طیب کی ماں نے کافی برا منایا اور کہا کہ آپ نے میرے شوہر کی موت کو اہمیت نہیں دی اور کہا کہ وہ ان کی بیوی کی وفات پر سب کو ساتھ لے کر لمبے عرصے تک رہی. شوہر اور بیٹا واپس چلے گئے تھے مگر اس کے شوہر نے اس سے کہاکہ جتنا عرصہ مرضی رہو جب تک عدن سنبھل نہ جائے. اس نے عدن کو سنبھالا اور کافی وقت گزارنے کے بعد وہ واپس گئ. اس وجہ سے وہ عدن کے باپ سے ناراض ہو گئ.
عدن کے باپ نے بیٹی کو خوب بڑھا چڑھا کر بتایا. کہ کیسے اس کی خالہ نے اس کی بےعزتی کی ہے.
عدن نے جب سنا اور باپ سے غصے میں بولی ڈیڈ خالہ کی جرات کیسے ہوئی آپ کی بےعزتی کرنے کی. میں ابھی ان کو فون سے اور فیس بک سے بلاک کر دوں گی.
باپ نے سمجھاتے ہوے کہا کہ نہ بیٹا ایسا نہ کرنا بلکہ ان کی فون کالز کو اگنور کرنا اور فیس بک پر اپنے آپ کو نارمل اور خوش ظاہر کرنا تاکہ ان کو پتا چلے کہ ان کی ناراضگی سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے. اور ہاں خالہ سے بدتمیزی نہ کرنا.
عدن التجاہیا انداز میں بھولے پن سے بولی مگر ڈیڈ میں طیب کو خوب سنا کر دوبارہ کال نہ سنوں گی نہ کروں گی.
عدن نے طیب کو خوب سناہیں اور وارننگ دی کہ آہندہ کھبی ادھر فون نہ کرنا.
وہ ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا.
طیب کی ماں نے پوچھا کیا ہوا تو طیب نے کہا کہ ماما آپ کی لاڈلی عدن صاحبہ فون پر مجھ سے لڑنے کی کوشش کر رہی تھی اور لڑنا بھی نہیں آتا اس کو بس اپنے باپ کی تعریفیں کر رہی تھی اپنی طرف سے صفاہیاں بھی دے رہی تھی. کہ اس کے پاپا بہت اچھے ہیں رحم دل ہیں کسی کا برا نہیں چاہتے تم لوگ ظالم ہو جو اتنے نیک دل انسان کو ہرٹ کیا ہے وغیرہ وغیرہ.
طیب کی ماں مسکرانے لگی اور بولی بہت بھولی ہے میری عدن. ایک لمبا سانس بھر کر بولی مجھے اس کے باپ سے یہ امید نہ تھی بلکہ اسے فل ساتھ دینا چاہیے تھا کہ میں اس کی بہن لگتی تھی سالی تھی مگر اس نے رشتے کا پاس نہ کیا جبکہ میں اس وقت اکیلی عورت تھی. شکر ہے تم جوان ہو ورنہ میں اس مشکل وقت میں اکیلی کیا کرتی. اچھا چھوڑو ان کو احساس نہیں تو ہمیں کیا.
بہرحال عدن سے ناراضگی نہیں ہے ہماری.
طیب ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا ماما آپ ٹینشن نہ لیں میں ہوں نا آپ کے ساتھ پھر آپ کسی دوسرے سے توقع کیوں رکھتی ہیں.
اس کی ماں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا کہ بس اپنی کرنی کا دکھ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کیسے ہیں اور دوسرے ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں.
طیب بولا چھوڑیں ماما چلیں گرم گرم کافی پیتے ہیں.
عدن کے باپ کو طیب کی ماں سے ناراضگی کے بعد اب ادھر سے رشتے کی امید نہ رہی تو اس نے عدن کی شادی کی کوشش شروع کر دیگر عدن کی فضول سی ضد پر وہ بے بس ہو گیا اور اس کی ڈیمانڈ کا اس کا ایج فیلو اچھا رشتہ نہ مل سکا. پھر اسی دوران رانی اس کی زندگی میں آ گئ تو وہ کچھ وقت کے لئے بیٹی کو بھی بھول گیا مگر جب ایک دن اس نے لان میں بیٹھی روتی اپنی بیٹی کو دیکھا تو اس کا دل پسیج گیا اور اسے اپنے رویے پر شرمندگی محسوس ہوئی اور ایک دم سے اسے طیب اور اس کی ماں کا خیال آ گیا جو وہ ہستیاں تھیں جن سے عدن کو خوشی ملتی تھی مگر اس نے اپنی اناء کے گھمنڈ میں اپنی بیٹی کی خوشیوں کو بھی روند ڈالا. اسے اب سارا قصور اپنا ہی نظر آ رہا تھا جب طیب کی ماں نے اسے گلہ کیا تو وہ پہلے سے ہی بزنس کی ٹینشن میں غصے میں بھرا بیٹھا تھا اس کے گلہ کرنے سے اور بھڑک بیٹھا اور اسے بولا میں فوتگی کا سارا خرچہ بھیج دیتا ہوں چالیس دن تک سب میری طرف سے ہو گا خوب شاندار طریقے سے کرو.
یہ بات سنتے ہی طیب کی ماں کو غصہ آ گیا اور غصے سے بولی کیا میں نے اس لیے فون کیا ہے کیا ہم کوئی خدانخواستہ کنگلے ہیں. ہمارے پاس اللہ پاک کا دیا بہت کچھ ہے. جو مر گیا ہے وہ سب اس کے چھوڑے ہوئے پیسے سے ہو رہا ہے اور وہ بھی بڑے پیمانے پر غریبوں میں تقسیم کیا جارہا ہے نہ کہ امیروں کے آگے شوآف.اور آپ کو پیسے کا گمنڈ ہے نا. آپ کی نظر میں انسان کی ویلیو نہیں ہے. ماشاء اللہ اللہ پاک کے کرم سے آپ سے زیادہ ہی پیسہ ہو گا انشاءاللہ میری بقیہ زندگی بھی سکون سے اس کے بل بوتے پر گزرے گی. اور اس نے غصے سے بند کر دیا.
شاہ صاحب کی اس طرح کسی نے طبیعت صاف نہ کی تھی کچھ کام کی ٹینشن اور کچھ اوپر سے اس نے بھی باتیں سنا دیں انہیں بہت غصہ آیا اور بیٹی کو بتا کر دل کی بھڑاس نکال لی.
عدن کو بہت غصہ آیا اس نے باپ کی فیور میں طیب سے لڑائی کی باپ کے کہنے پر اسے بلاک تو نہ کیا مگر وہ اب کی فون کالز کو اٹینڈ نہ کرتی نہ ہی طیب کے میسج کا جواب دیتی.
اب باپ نے اسے بتایا کہ وہ لوگ پاکستان سیٹل ہو رہے ہیں اور اس کے باپ نے اس سے ناراضگی ختم کر دی ہے اور اس کا رشتہ بھی طیب سے طے کر دیا ہے.
عدن یہ سن کر بہت حیران ہونے لگی. عدن نے چلا کر کہا کہ ڈیڈ آپ کو پتا ہے میری ڈیمانڈ کا وہ تو مجھ سے دو سال بڑا ہے اور میرا باس بھی بنا رہتا ہے.
عدن کے باپ نے کہس کہ ایک تو تمھاری ڈیمانڈ بےمعنی ہے. دوسری بات یہ کہ طیب سے بہتر مجھے تمھارے لیے بہتر اور تسلی بخش رشتہ کوئی اور نہیں لگتا. وہ تو شکر ہے کہ تمھاری خالہ نے خود ہی رشتہ مانگ لیا اور اللہ تعالیٰ نے میری عزت رکھ لی ورنہ میں خود انہیں کہنے والا تھا.
عدن بولی ڈیڈ میری مرضی بھی تو کچھ اہمیت رکھتی ہے نا آخر.
رانی پاس بیٹھی فروٹ کھا رہی تھی اور مسکرا کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی. اور بولی بیٹا ان کی کوئی ڈیمانڈ بھی نہیں ہے ورنہ باقی جگہ تو لوگ پہلے جہیز کی لسٹ پکڑاتے ہیں.
عدن بولی آپ سے مشورہ نہیں مانگا.
باپ نے ڈانٹ کر کہا بری بات تمھاری ماں ہے اور بس اب تم ان کے آنے پر رانی کے ساتھ جا کر شاپنگ کر لینا.
عدن نے دیکھا اس نے اس کی ماں کی ساڑھی پہن رکھی ہے. وہ چلا کر بولی میری ماما کی ساڑھی کیوں پہنی ہے اتارو آسی وقت جا کر.
رانی روتی صورت بنا کر بولی جان میں آپ سے کہہ رہی تھی ناکہ جب عدن بیٹی دیکھے گی اسے برا لگے گا مگر آپ کہتے تھے کہ یہ میں اپنی پسند سے لایا تھا تم پر بہت جچے گی بہت قیمتی ہے.
باپ نے عدن کو ڈانٹتے ہوے کہا کہ تم کیوں رانی کی لاہف کو اپنی مرضی سے جینے نہیں دیتی جب میں نے اسے خود دی تو....
رانی سنتے ہی َاٹھ کر غصے سے کمرے میں چلی گئی پوری بات بھی نہ سنی.
رانی نے شاہ صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پیار سے بولی جان آپ ٹینشن نہ لیں ورنہ آپ کا بی پی شوٹ کر جاے گا میں ابھی ساڑھی چینج کر کے اس کو منانے جاوں گی ویسے بھی خالہ آنے والی ہے ٹھیک ہو جائے گی.
رانی کا باپ اس کے لیے اس کے فیورٹ آلو کے فرَاہز اور چائے بنا کر اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا اس نے دوپہر کا کھانا بھی نہ کھایا تھا اور اکثر وہ ہرٹ ہوتی تو رانی کا باپ اس کا کھانا یا اس کی پسند کا کچھ اپنے ہاتھوں سے بنا کر لے جاتا وہ کچھ نہ کچھ اچھا پکا لیتا تھا کیونکہ رانی تو جاب کے بعد کچھ نہ پکاتی تھی تو باپ ہی گھر میں کچھ نہ کچھ بناتا رہتا تھا اسے باہر کے کھانے پسند نہ تھے اور رانی کو بھی منع کرتا رہتا. اب وہ کافی ایکسپرٹ ہو گیا تھا اور عدن کو بھی باہر سے زیادہ اس کے ہاتھ کے پسند آنے لگے تھے اور اب تو وہ اسے فرماہش بھی کرتی تھی اور رانی کو غصہ آتا تھا کہ جب گھر میں اتنے ملازم موجود ہیں تو وہ باپ کو منع کرتی مگر وہ باز نہ آتا.
آج بھی ملازمہ اسے کھانے پر بلا چکی تھی مگر وہ اسے ڈانٹ کر بھیج دیتی تھی. اب جب رانی کے باپ نے آہستگی سے دروازہ بجایا عدن اس کی دستک پہچانتی تھی اسے رانی پر شدید غصہ تھا اس نے سوچا یہ بھی رانی کا باپ ہے میں اس کو آج خوب سناتی ہوں مگر جب دروازہ کھولا تو اس کے ہاتھ میں ٹرے دیکھ کر اس کے خلوص کے آگے ہار گئی اور وہ اس کے کمرے میں ٹرے رکھ کر جاتے ہوئے بولا آپ نے دن کو بھی کھانا نہیں کھایا اور.....
رانی اس کی بات کاٹتے ہوے بولی ٹھیک ہے آپ بھی تیار ہو جائیں میں زرا باہر جانا چاہتی ہوں آپ کے ساتھ.
وہ خوش ہوتے ہوئے بولا اچھا میں ابھی تیار ہو جاتا ہوں.
رانی چاے پیتے اور فرَاہز کھاتے گہری سوچ میں مبتلا تھی.
جب تیار ہو کر دونوں جانے لگے تو عدن کا باپ بولا کدھر جا رہے ہیں.
عدن نے کہا باہر گھومنے.
عدن کا باپ بولا اچھا ہے رانی کا باپ ساتھ ہو گا تو مجھے تسلی رہے گی تم آنے میں دیر کر دیتی ہو.
عدن نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسے اگلی سیٹ پر بیٹھنے کا حکم دیا وہ فورا بیٹھ گیا.
عدن تیز چلا رہی تھی وہ ڈرتے ڈرتے بولا عدن جی آہستہ چاہیں.
عدن نے رفتار آہستہ کر لی.
کورٹ کے باہر روک کر اس نے رانی کے باپ کو مخاطب کر کے پوچھا کہ کیا آپ میرے ساتھ کورٹ میرج کریں گے.
وہ حیرت سے بولا عدن جی میں آپ سے عمر میں بہت بڑا حیثیت میں کم ہوں. آپ کی خالہ آ رہی ہیں نا جو آپ کے حیثیت کے لوگ ہیں اور آپ سے صرف دو سال بڑا اتنا فرق تو مناسب ہے.
عدن نے کہا کہ آپ راضی ہیں یا نہیں. میرے پاس دو راستے ہیں یا تو میں خودکشی کر لوں.
رانی کا باپ بولا اللہ نہ کرے.
عدن نے پھر کہا یا آپ سے شادی کر کے باپ کو سامنے رہ کر جلاتی رہوں.
رانی کے باپ نے سمجھانا چاہا تو عدن نے کہا کہ اگر آپ نے کوئی چالاکی کی کسی کو بتانے کی کوشش کی تو میں لازمی جان دے دوں گی ویسے بھی میں جان دینے یا تم سے شادی کر کے تم سے رانی کے بدلے لے کر سکون محسوس کروں گی بولو منظور ہے یا میں اپنی جان دے دوں.
رانی کا باپ بولا مجھے آپ جیسی مخلص لڑکی اگر جوانی میں اپنی حیثیت کی مل جاتی تو میں خوش ہوتا مگر اب میں تو خوش قسمتی سمجھوں گا مگر آپ کی زندگی برباد ہو جائے گی پلیز آپ مجھے جو سزا دیں مجھے منظور ہے مگر اپنے آپ کو سزا نہ دیں.
رانی غصے سے بولی تو تم نہیں مانو گے اب میرے پاس دوسرا راستہ بچا ہے.
جاری ہے.
Post a Comment